تفسير ابن كثير



سورۃ الإسراء/بني اسرائيل

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
قَالَ اذْهَبْ فَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ فَإِنَّ جَهَنَّمَ جَزَاؤُكُمْ جَزَاءً مَوْفُورًا[63] وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَأَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَرَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا[64] إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ وَكَفَى بِرَبِّكَ وَكِيلًا[65]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] فرمایا جا، پھر ان میں سے جو تیرے پیچھے چلے گا تو بے شک جہنم تمھاری جزا ہے، پوری جزا۔ [63] اور ان میں سے جس کو تو اپنی آواز کے ساتھ بہکا سکے بہکا لے اور اپنے سوار اور اپنے پیادے ان پر چڑھا کر لے آ اور اموال اور اولاد میں ان کا حصہ دار بن اور انھیں وعدے دے اور شیطان دھوکا دینے کے سوا انھیں وعدہ نہیں دیتا۔ [64] بے شک میرے بندے، تیرا ان پر کوئی غلبہ نہیں اور تیرا رب کافی کار ساز ہے۔ [65]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] ارشاد ہوا کہ جا ان میں سے جو بھی تیرا تابعدار ہوجائے گا تو تم سب کی سزا جہنم ہے جو پورا پورا بدلہ ہے [63] ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے بہکا لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا ﻻ اور ان کے مال اور اوﻻد میں سے اپنا بھی ساجھا لگا اور انہیں (جھوٹے) وعدے دے لے۔ ان سے جتنے بھی وعدے شیطان کے ہوتے ہیں سب کے سب سراسر فریب ہیں [64] میرے سچے بندوں پر تیرا کوئی قابو اور بس نہیں۔ تیرا رب کارسازی کرنے واﻻ کافی ہے [65]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] خدا نے فرمایا (یہاں سے) چلا جا۔ جو شخص ان میں سے تیری پیروی کرے گا تو تم سب کی جزا جہنم ہے (اور وہ) پوری سزا (ہے) [63] اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔ اور ان پر اپنے سواروں اور پیاروں کو چڑھا کر لاتا رہ اور ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوتا رہ اور ان سے وعدے کرتا رہ۔ اور شیطان جو وعدے ان سے کرتا ہے سب دھوکا ہے [64] جو میرے (مخلص) بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں۔ اور (اے پیغمبر) تمہارا پروردگار کارساز کافی ہے [65]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 63، 64، 65،

شیطانی آواز کا بہکاوا ٭٭

ابلیس نے اللہ سے مہلت چاہی، اللہ تعالیٰ نے منظور فرمالی اور ارشاد ہوا کہ «قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ * إِلَىٰ يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ» ‏‏‏‏ [15-الحجر:37-38] ‏‏‏‏ ” وقت معلوم تک مہلت ہے “

تیری اور تیرے تابعداروں کی برائیوں کے بدلہ جہنم ہے، جو پوری سزا ہے۔ اپنی آواز سے جسے تو بہکا سکے بہکا لے یعنی گانے اور تماشوں سے انہیں بہکاتا پھر۔ جو بھی اللہ کی نافرمانی کی طرف بلانے والی صدا ہو وہ شیطانی آواز ہے۔

اسی طرح تو اپنے پیادے اور سوار لے کر جس پر تجھ سے حملہ ہوسکے حملہ کرلے۔ «رَجِلِ» جمع ہے «راجل» کی جیسے رکب جمع ہے راکب کی اور صحب جمع ہے صاحب کی۔ مطلب یہ ہے کہ جس قدر تجھ سے ہو سکے ان پر اپنا تسلط اور اقتدار جما۔ یہ امر قدری ہے نہ کہ حکم۔
4737

شیطانوں کی یہی خصلت ہے کہ وہ بندگان رب کو بھڑکاتے اور بہکاتے رہتے ہیں۔ انہیں گناہوں پر آمادہ کرتے رہتے ہیں۔ اللہ کی معصیت میں جو سواری پر ہو اور پیدل ہو، وہ شیطانی لشکر میں ہے۔ ایسے جن بھی ہیں اور انسان بھی ہیں جو اس کے مطیع ہیں۔ جب کسی پر آوازیں اٹھائی جائیں تو عرب کہتے ہیں اجلب فلان علی فلان۔‏‏‏‏ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ گھوڑ دوڑ میں جلب نہیں، [سنن ابوداود:2581،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ وہ بھی اسی سے ماخوذ ہے۔ جلبہ کا اشتقاق بھی اسی سے ہے یعنی آوازوں کا بلند ہونا۔

ان کے مال اور اولاد میں بھی تو شریک رہ۔ یعنی اللہ کی نافرمانیوں میں ان کا مال خرچ کرا، سود خوری ان سے کرا، برائی سے مال جمع کریں اور حرام کاریوں میں خرچ کریں۔ حلال جانوروں کو اپنی خواہش سے حرام قرار دیں وغیرہ۔

اولاد میں شرکت یہ ہے مثلا زناکاری جس سے اولاد ہو۔ جو اولاد بچپن میں بوجہ بیوقوفی ان کے ماں باپ نے زندہ درگور کر دی ہو یا مار ڈالی ہو یا اسے یہودی نصرانی مجوسی وغیرہ بنا دیا ہو۔ اولادوں کے نام عبد الحارث، عبد الشمس اور عبد فلاں رکھا ہو۔ غرض کسی صورت میں بھی شیطان کو اس میں داخل کیا ہو، یا اس کو ساتھ کیا ہو، یہی شیطان کی شرکت ہے۔

صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ اللہ عز و جل فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو ایک طرف موحد پیدا کیا پھر شیطان نے آکر انہیں بہکا دیا اور حلال چیزیں حرام کر دیں۔ [صحیح مسلم:2865] ‏‏‏‏
4738

بخاری و مسلم میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم میں سے جو اپنی بیوی کے پاس جانے کا ارادہ کرے یہ پڑھ لے «‏‏‏‏اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا» ‏‏‏‏ یعنی یا اللہ تو ہمیں شیطان سے بچا اور اسے بھی جو تو ہمیں عطا فرمائے۔ تو اگر اس میں کوئی بچہ اللہ کی طرف سے ٹھیر جائے گا تو اسے ہرگز ہرگز کبھی بھی شیطان کوئی ضرر نہ پہنچا سکے گا۔ [صحیح بخاری:141] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے کہ جا تو انہیں دھوکے کے جھوٹے وعدے دیا کر، چنانچہ قیامت کے دن یہ خود کہے گا کہ اللہ کے وعدے تو سب سچے تھے اور میرے وعدے سب غلط تھے۔
4739

پھر فرماتا ہے کہ میرے مومن بندے میری حفاظت میں ہیں، میں انہیں شیطان رجیم سے بچاتا رہوں گا۔ اللہ کی وکالت اس کی حفاظت اس کی نصرت اس کی تائید بندوں کو کافی ہے۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن اپنے شیطان پر اس طرح قابو پالیتا ہے جیسے وہ شخص جو کسی جانور کو لگام چڑھائے ہوئے ہو۔ [مسند احمد:380/2:ضعیف] ‏‏‏‏
4740



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.